Arshi khan

Add To collaction

14-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منزل عشق قسط 12

منزل عشق قسط 12
"سلطان سے رابطہ ہوا تمہارا؟"
راگا نے ویرہ سے پوچھا جو اس وقت ان کے کام کی جگہ پر کھڑا نقشے کو دیکھتے ہوئے کچھ سوچ رہا تھا۔
"ہاں جو آدمی انہوں نے جنرل کو مارنے کے لیے بھیجا تھا وہ پکڑا گیا اسی لیے اس نے زہر لے کر خودکشی کر لی۔۔۔۔"
راگا نے نگاہیں اٹھا کر دیکھا۔اسکی آنکھوں میں غصہ تھا۔
"بے وقوف آدمی سارا کھیل بگاڑ دیا۔۔۔۔اب ہم بھی سلطان کا کوئی کام نہیں کرے گا۔"
راگا نے فیصلہ سنایا جو ویرہ کو کچھ خاص پسند نہیں آیا۔
"راگا اگر ہم سلطان کا کام نہیں کریں گے تو ہم کریں گے کیا؟"
"ہم خود سے دہشت بنیں گے ویرہ اب راگا،کال اور ویرہ اتنے کمزور نہیں کہ کسی کا کام کریں دیکھنا بہت جلد یہ سلطان جیسے بھی خود اپنی پہچان کے ساتھ ہمارے سامنے ہوں گے۔۔۔۔"
ویرہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
"مجھے اس سب سے فرق نہیں پڑتا میرے جینے کا مقصد بس تباہی ہے اس نظام کی تباہی یہاں کے بزدل لوگوں کی تباہی۔۔۔۔"
ویرہ کے لفظوں میں بہت زیادہ درد اور تکلیف تھی۔راگا نے اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔
"میرے بابا ایک وکیل تھے راگا ایک سیاست دان کے بھائی کے خلاف کیس لڑا تھا انہوں نے اور جانتے ہو نتیجا کیا نکلا؟"
ویرہ نے نفرت سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں جبکہ آنکھیں لال انگارہ ہو چکی تھیں۔
"ہمارے گھر میں گھس کر میری ماں بابا کو مار دیا۔گیارہ سال کی عمر میں میری آنکھوں کے سامنے میری چھوٹی بہن اور ایک سالہ بھائی کو مار دیا انہوں نے۔۔۔۔۔میرا بھی گلا کاٹا لیکن شائید یہ میری قسمت تھی کہ میں بچ گیا۔۔۔۔"
ویرہ نے اپنی گردن سے چادر ہٹا کر اسے دیکھائی تھی جہاں آج بھی کٹ کا نشان تھا۔
"اور جانتے ہو ہمارے محلے والوں نے کیا کیا؟ بزدلوں کی طرح اپنے گھروں میں چھپ کر ہماری چیخیں سنتے رہے۔۔۔۔پولیس اطلاع ملنے کے باوجود نہیں آئی۔۔۔۔اور صبح میرے گھر والوں کی لاشوں کو دیکھ کر کہنے لگے کہ بہت افسوس ہوا۔"
ویرہ کی آنکھیں غم کی شدت سے لال ہو چکی تھیں۔
"سب کو حساب چکانا ہو گا اس  زیادتی کا راگا سب کو۔۔۔سب سے نفرت ہے مجھے۔۔۔"
راگا نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ہاں میں سر ہلایا۔
"فکر مت کر ویرہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔"
ویرہ نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔راگا کچھ سوچ کر پہلے ہچکچایا پھر آہستہ سے بولا۔
"تو نے کل رات اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھایا کیا؟"
ویرہ نے اس سوال پر حیرت سے نگاہیں  اٹھا کر اسے دیکھا۔
"یہ میرا ذاتی۔۔۔"
"جانتا ہوں ماڑا کہ یہ تیرا ذاتی معاملہ ہے میں بس ایک دوست ہونے کے ناطے سے پوچھ رہا ہوں۔"
راگا نے عام سے انداز میں کہا تو ویرہ نے گہرا سانس لیا۔
"عورتوں کو قابو میں رکھنے کے لیے بعض اوقات انہیں انکی حد یاد دلانی پڑتی ہے راگا ورنہ ہاتھ سے نکل جاتی ہیں۔"
اس بات پر راگا نے مسکراتے ہوئے اپنا سر انکار میں ہلایا۔
"نہیں ویرہ تو غلط ہے۔۔۔عورت ایک ایسے پھول کی مانند ہوتی ہے جسے محبت سے رکھو تو اپنے مالک کی خاطر کھل جاتا ہے اسکے لیے کسی بھی طوفان سے لڑ جاتا ہے لیکن اگر اسے سختی سے پیش آؤ تو بہت آسانی سے مرجھا جاتا ہے وہ۔۔۔۔عورت بہت عظیم ہوتا ہے ماڑا۔۔۔۔لیکن وہ خوف کی وجہ سے صرف تب تک تمہارے ساتھ رہے گا جب تک وہ خوف قائم رہے گا لیکن محبت کی وجہ سے وہ تا قیامت تمہارا ہی ہو کر رہے گا۔"
راگا کی بات پر ویرہ خاموش ہو گیا اور اسے کوئی بھی جواب دیے بغیر اپنا کام کرنے لگا۔
                 ❤️❤️❤️❤️
"تم نے یہ سب کہاں سے سیکھا؟"
ہوٹل میں واپس آتے ہی انس نے اسے پوچھا جو جلدی جلدی سامان پیک کر رہی تھی۔
"کیا سب؟"
"وہی جو سب وہاں تم نے اس آدمی کے ساتھ کیا۔"
ہانیہ نے منہ بنا کر اسے دیکھا۔
"آپ کو کیا لگا کہ آپ کے جانے کے بعد میرا کوئی سہارا ہی نہیں بچے گا؟ہوں۔۔۔۔کیڈٹ سکول میں پڑے ہیں میں اور وانی کراٹے کلاس لیتی تھی میں۔۔۔۔سوچا تھا بڑی ہو کر آرمی میں جاؤں گی لیکن بابا نے ایسا نہیں ہونے دیا۔"
ہانیہ اتنا کہہ کر واپس اپنا کام کرنے لگی۔
"وہ ڈرتے ہیں ہانیہ نہیں چاہتے تھے کہ تم مصیبت میں پڑو۔۔۔۔"
"مجھے فرق نہیں پڑتا وہ کیا چاہتے ہیں کیا نہیں اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کی طرح بزدل بن کر رہوں تو ایسا ناممکن ہے۔"
انس اس کی بے رخی پر گہرا سانس لے کر رہ گیا۔
"چلیں اب ہمیں چلنا ہے بائے روڈ بہت ٹائم لگے گا ہمیں گلگت بلتستان پہچنے میں۔۔۔"
انس نے ہاں میں سر ہلایا لیکن تب ہی دروازہ کھٹکھانے کی آواز پر وہ دونوں حیرت زدہ ہو کر دروازے کو دیکھنے لگے۔
"کون کو سکتا ہے؟"
ہانیہ نے ابرو اچکا کر پوچھا جبکہ انس اپنی بندوق پر ہاتھ رکھتا دروازے کی جانب بڑھا لیکن دروازہ کھولتے ہی سامنے کھڑے وجدان کو دیکھ کر وہ ٹھٹکا تھا۔
"سر۔۔۔۔"
وجدان نے انس کو بلکل نظر انداز کیا اور غصے سے ہانیہ کی جانب بڑھا جو حیرت سے باپ کو دیکھ رہی تھی۔
"ہانیہ گھر چلو۔۔۔"
وجدان نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کھینچا لیکن وہ اپنی جگہ پر قدم جما کر کھڑی تھی۔
"نہیں بابا میں نہیں جا رہی۔۔۔۔"
"ہانیہ تم نے سنا نہیں میں نے کیا کہا؟ابھی کے ابھی گھر چل رہی ہو تم۔۔۔۔"
وجدان نے زرا سختی سے اسے ساتھ کھینچتے ہوئے کہا۔
"وانیا کے بغیر میں گھر نہیں جاؤں گی بابا اگر مجھے گھر لانا ہے تو اسے ڈھونڈیں آپ۔۔۔"
اتنا کہہ کر ہانیہ نے اپنا ہاتھ چھڑایا۔
"ہانیہ جب میں نے کہا ہے کہ بہت جلد ڈھونڈ لوں گا اسے تو تم سمجھ کیوں نہیں پا رہی اس بات کو؟"
وجدان غصے سے دھاڑا۔
"کیونکہ میں یہ سمجھ نہیں پا رہی کہ جب آپ میرا پتہ نہ جاننے کے باوجود مجھے دو دن میں ڈھونڈ سکتے ہیں تو وانیا اتنے عرصے سے وہاں کیوں ہے بابا؟"
وجدان نے بے بسی سے ہانیہ کو دیکھا۔
"میں تمہیں کچھ بھی نہیں بتا سکتا ہانیہ بس اتنا جان لو کہ وانیا بلکل ٹھیک ہے قسم کھا کر کہتا ہوں میں۔۔۔"
ہانیہ نے اس سے پوچھنا چاہا کہ وہ اتنے یقین سے یہ بات کیسے کہہ سکتا تھا پھر ایک خیال کے تحت وہ ٹھٹھک گئی۔
"کہیں آپ نے اسے خود وہاں نہیں بھیجا؟بابا کہیں اس راگا کو پھر سے پکڑنے کے لیے آپ نے اسے زریعہ تو نہیں بنایا؟"
ہانیہ کے سوالوں پر وجدان اپنی نظریں چرانے لگا۔
"ایسا ہی سمجھ لو ہانیہ لیکن وہ بلکل ٹھیک۔۔۔۔"
"ہاؤ ڈئیر یو۔۔۔ہاؤ ڈئیر یو بابا وہ اتنی معصوم ہے اور آپ نے اس کا اس طرح سے استعمال۔۔۔۔میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی بابا کہ آپ اس قدر گر سکتے ہیں۔۔۔۔"
"ہانیہ ۔۔۔۔!!!"
وجدان چلایا تھا جبکہ انس بس خاموشی سے کھڑا ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔
"نہیں بابا آج میں خاموش نہیں رہوں گی اور نہ ہی اپنی بہن پر یہ ظلم ہونے دوں گی کچھ بھی ہو جائے اور کوئی نہیں تو وانی کی ہانی اسکے ساتھ کھڑی ہے اسکی آخری سانس تک۔۔۔۔"
وجدان ہانیہ کی آنکھوں میں ایک جنون ایک آگ دیکھ سکتا تھا۔وہ اتنا سمجھ چکا تھا کہ اگر ہانیہ کو لے جا کر وہ ساری سچائی بھی بتاتا تو بھی ہانیہ چپ کر کے بیٹھنے والی نہیں تھی۔وہ اس کی قید سے نکل کر کسی بھی طرح پھر سے وانیہ کو تلاش کرنے نکل جاتی لیکن اگلی بار اپنی اس بے وقوفی میں انس کو بھی شامل نہیں کرتی۔
بے بسی کے عالم میں وجدان اپنی ضدی سی بیٹی کو دیکھتا رہا پھر مٹھیاں بھینچ کر انس کے پاس آیا۔
"میری بیٹی کو کچھ بھی ہوا نا تو تمہیں نہیں چھوڑوں گا انس۔۔۔۔جان سے زیادہ خیال رکھنا اس کا۔۔۔۔"
انس نے ہاں میں سر ہلا کر اس بے بس باپ کو یقین دلایا تو وجدان آنسوؤں پر ضبط باندھتا وہاں سے چلا گیا۔
"چلیں انس ہمیں دیر ہو رہی ہے۔۔۔۔"
انس نے ہاں میں سر ہلایا اور اپنا بیگ پکڑ کر کندھوں پر پہن لیا۔اب وہ دونوں نئے سفر پر گامزن ہو چکے تھے۔
                     ❤️❤️❤️❤️
وانیا آج ہمت کر کے گھر کی پچھلی جانب لکڑی کی بنی بالکونی میں آئی جہاں سے دور برف سے ڈھکے پہاڑ اور نیچے موجود گاؤں کو دیکھا جا سکتا تھا۔کتنی دیر وہ وہاں کھڑی اس منظر کو دیکھتی رہی  اس کا اسے بھی اندازہ نہیں ہوا۔
ہوش تو اسے تب آیا جب شام کے سائے فلک پر لہرانے لگے اور سردی سے اس کا وجود کپکپا اٹھا۔کمرے میں واپس آ کر اچانک سے یاد آیا کہ اسکے نئے نویلے شوہر نیو سے گھر کا ہر کام سنبھالنے کو کہا تھا لیکن کچھ کرنا دور وانیا نے تو ان دونوں کے لیے کھانا تک نہیں بنایا تھا۔
"ہوں میں کیوں کروں کام ان کی نوکرانی تو نہیں ہوں آئیں گے تو بول دوں گی کہ مجھ سے کچھ نہیں ہوتا۔۔۔۔"
وانیا نے منہ بنا کر خود سے کہا لیکن پھر ایک خیال آنے پر پریشان ہوگئی۔
"لیکن اگر ان کو غصہ آ گیا اور غصے میں آ کر انہوں نے ویرہ بھائی کی طرح مجھے بھی مارا تو۔۔۔۔"
لہذا کے بڑے سے ہاتھ کا اپنے گال پر سوچ کر وانیا نے خوف سے اپنا ہاتھ اپنی گال پر رکھ لیا۔
"للل۔۔۔۔لیکن میں بناؤں گی کیا مجھے تو کچھ بھی بنانا نہیں آتا۔۔۔"
وانیا نے پریشانی سے کہا اور کمرے میں چکر لگانے لگی۔پھر جب اسے کچھ سمجھ نہ آیا تو اپنا ہمیشہ والا کام کرنے لگی۔کمرے کے کونے میں بیٹھ کر رونا۔راگا کمرے میں آیا تو وہ اس کو اسی حال میں ملی تھی۔
"اب کیا ہو گیا افغان جلیبی رونا فارغ وقت کا مشغلہ ہے کیا تمہارا؟"
راگا نے شرارت سے پوچھا اور اس کے پاس آکر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔
"آپ مجھے زیادہ زور سے مت مارنا۔۔۔ہاتھ بہت بڑا ہے آپ کا بہت درد ہو گا۔۔۔"
"میں تمہیں کیوں ماروں گا؟"
 وانیا کی بات پر راگا نے حیرت سے پوچھا۔
"کیونکہ میں نے کوئی کام نہیں کیا۔۔۔۔کھانا بھی نہیں بنایا کچھ بھی نہیں کیا۔۔۔اور آپ نے کہا تھا کہ اب میں سب کام کیا کروں گی۔"
وانیا نے اپنی قمیض کے بازو سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔راگا کو اپنی معصوم سی جان پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا لیکن وہ راگا ہی کیا جو اپنی افغان جلیبی کو ستائے نہ۔۔۔
"اب تم کام ہی تھپڑ کھانے والے کرے گا تو تھپڑ تو پڑے گا نا۔۔۔کھانا کیوں نہیں بنایا تم نے؟ شوہر کی بھوک کا بلکل بھی خیال نہیں تمہیں۔۔۔۔"
راگا نے انگوٹھے سے اسکا ہونٹ سہلاتے ہوئے معنی خیزی سے کہا جب کہ آنکھوں میں بے پناہ تپش تھی۔ایک پل میں وانیا گھبرا کر خود میں سمٹ گئی تھی۔
"وہ۔۔۔۔وہ مجھے کچھ پکانا نہیں آتا۔۔۔"
وانیا نے گھبرا کر اس سے دور ہوتے ہوئے کہا لیکن راگا اسکے کھینچ کر اپنی پناہوں میں لے چکا تھا اور خود کے گرد لپٹی گرم چادر وانیا کے گرد لپیٹ دی۔
"تو مجھے خود کو کھانے دو افغان جلیبی یقین جانو کبھی کھانا نہیں بنانا پڑے گا تمہیں،بس تم پر ہی خوشی سے زندہ رہ لوں گا۔۔۔"
راگا کی مونچھوں کی چبھن اور اسکی سانسوں کی تپش اپنے کان پر محسوس کر وانیا کانپ کر رہ گئی تھی۔
"ممم۔۔۔۔۔ مجھے بھوک لگی ہے بہت۔۔۔"
"یہ تو اور اچھی بات ہے۔۔۔"
راگا اسکے ہونٹوں کے قریب ہونے لگا تو وانیا نے اپنا ہاتھ اسکے ہونٹوں پر رکھا تھا۔
"کھانے کی بھوک۔۔۔"
اس کی گھبراہٹ پر راگا نے مسکرا کر اسکا ہاتھ چوما اور اپنی گرماہٹ سے آزاد کیا اسے۔
"اچھا پھر کچھ نہ کچھ تو بنانا آتا ہوگا تمہیں، بتاؤ کیا بنانا آتا ہے۔۔۔ "
"کارن فلیکس۔۔۔"
کچھ سوچ کر وانیا نے آہستہ سے کہا جبکہ یہ سن کر راگا کا دل کیا کہ اپنا سرپیٹ لے۔
"ماڑا وہ تو کوئی دو سال کا بچہ بھی بنا لے دودھ میں پاپڑی ڈال کر کھانا تو بہت مشکل ہے نا جیسے ۔۔۔۔"
راگا کے مذاق پر وانیا کا منہ بن گیا۔
"میری مما مجھے کچھ کرنے نہیں دیتی تھیں اس لیے کچھ نہیں کرنا آتا مجھے۔۔۔"
راگا دیں کچھ دیر کے لئے سوچا پھر اپنا ہاتھ وانیا کی طرف بڑھایا۔
"چلو آؤ میرے ساتھ میں کچھ بنا کے کھلاتا ہے تمہیں۔۔۔"
راگا کو کھانا بناتے ہوئے دیکھنے کا خیال ہی اتنا مزے کا تھا کہ وانیا نے فوراً اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا۔اب راگا سادے سے آلو والے چاول بنانے کے لیے آلو کاٹ رہا تھا اور وانیا ٹھوڈی کے نیچے ہاتھ رکھے اسے دیکھ رہی تھی۔
"راگا۔۔۔دہشت کا دوسرا نام ۔۔۔جسے سن کر لوگ خوف سے کانپنے لگ جائیں یہاں دیکھو راگا کو ماڑا بیوی کے لیے کھانا پکا رہا ہے۔۔۔"
راگا نے بھرپور ڈرامہ کرتے ہوئے کہا تو وانیا ہلکا سا ہنس دی۔آج پہلی بار راگا نے اسے یوں ہنستے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔
"افف یہ ادائیں مار ڈالیں گی ایک دن ۔۔۔۔"
اسکے لہجے کی تپش پر وانیا کی نگاہیں جھک گئی تھیں۔تقریبا ایک گھنٹے کے بعد راگا نے کھانا بنایا اور لا کر وانیا کے سامنے رکھا۔
"چلو اب کھاؤ۔۔۔"
وانیا جو صبح سے بھوکی تھی جلدی سے کھانا ڈال کر کھانے لگی۔ویسے بھی چاول اسکی توقع کے برعکس بہت زیادہ مزے کے بنے تھے۔
"آپ نے نہیں کھانا کیا؟"
وانیا نے راگا سے پوچھا جو بس خاموشی سے اسے کھاتے دیکھ رہا تھا۔
"میرا کچھ میٹھا کھانے کا دل کر رہا ہے ماڑا لیکن وہ میٹھا مجھے ترس ترس کر ملتا ہے اس لیے میری فکر مت کرو میں بھوکا ہی سو جاؤں گا۔۔۔"
وانیا پھر سے اسکی معنی خیز باتوں پر خود میں سمٹ گئی تھی۔
"آپ کو شرم نہیں آتی ایسی باتیں کرتے۔۔۔"
اسکے سوال پر گھنی مونچھوں تلے عنابی لبوں پر شریر مسکراہٹ براجمان ہوئی تھی۔
"نہیں ماڑا کیونکہ شرمانا تمہارا کام ہے میرا کام تو بس اپنی بے شرم حرکتوں سے اپنی افغان جلیبی کو شرمانے پر مجبور کرنا ہے۔۔۔"
اسکی بات پر وانیا خود میں سمٹتی کھانا کھانا بھی چھوڑ چکی تھی۔
"آرام سے کھانا کھاؤ افغان جلیبی اور جان بنا لو آگے بہت کچھ جھیلنا ہے ابھی اور اتنی سی جان سے تو تم پہلی بار ہی۔۔۔"
وانیا نے اکتا کر اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیا تو راگا قہقہ لگا کر ہنس دیا۔
"چلو کھاؤ آرام سے اب تنگ نہیں کروں گا اپنی افغان جلیبی کو۔۔۔"
راگا نے بہت محبت سے کہا اور کھانا ڈال کر کھانے لگا جبکہ اسے کھانا کھاتا دیکھ وانیا نے بھی سکون کا سانس لیا تھا۔
                    ❤️❤️❤️❤️
ایمان اپنے کمرے میں لیٹی چھت کو دیکھ رہی تھی۔دماغ کسی بھی سوچ سے اور دل کسی بھی جذبے سے عاری تھا۔وہ بس ایک زندہ لاشوہ بس ایک زندہ لاش کی مانند تھی جسے اس محل میں قید کیا گیا تھا۔
آہستہ سے دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ بیڈ پر بیٹھ کر خوف سے کانپنے لگی۔سامنے ہی وہ خباثت سے مسکراتے عرفان ہو دیکھ سکتی تھی۔
"کیسی ہے میری رپنزل یاد کر رہی تھی نا مجھے۔۔۔۔"
عرفان نے اپنا ہاتھ اسکے گال پر رکھا جو پھسلتا ہوا اسکی گردن پر آ چکا تھا۔ایمان کو اس کے اس لمس سے وحشت ہو رہی تھی لیکن پھر بھی وہاں سے منع نہیں کر پائی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اسے منع کرنے کا انجام بہت برا ہونا تھا۔
"افسوس ہے میری جان کہ تمہیں مکمل طور پر پا نہیں سکتا میں۔۔۔اگر خادم سر کا ڈر نہیں ہوتا نا تو وہ کرتا تمہارے ساتھ جو تم خواب میں بھی سوچ نہیں سکتی۔۔۔۔"
اب اسکا ہاتھ پھسلتا ہوا اسکے بازو پر آ چکا تھا لیکن ایمان بس خاموشی سے بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔
ہاں یہی تھی اسکی زندگی اپنے گھر کی چار دیواری میں بھی وہ درندے سے محفوظ نہیں تھی۔
"لیکن ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا ایمان خادم کہ تمہیں صرف میرا ہی ہونا ہے کچھ بھی ہو جائے۔۔۔۔اس بوندھو معراج کو بال بھی نہیں چھونے دینا تم نے اپنا سمجھی عرفان کی امانت ہے یہ وجود۔۔۔"
اب کی بار عرفان کا ہاتھ اس کے سینے کی جانب بڑھا تو ایمان کی بس ہوئی تھی۔زور سے جھٹکا دے کر اس نے عرفان کا ہاتھ خود سے دور کیا تھا۔
"ڈونٹ ٹچ می۔۔۔۔ڈونٹ ٹچ می۔۔۔۔گندا لگتا ہے تمہارا چھونا بہت زیادہ گندا لگتا ہے۔۔۔۔"
ایمان نے اس سے دور ہو کر چلاتے ہوئے کہا لیکن اگلے ہی لمحے عرفان نے اسے اسکے بالوں سے پکڑ اپنی طرف کھینچا اور زور دار تھپڑ اسکے چہرے پر مارا تھا۔تھپڑ کی شدت اتنی زیادہ تھی کے ایمان بیڈ پر گر چکی تھی۔
"لگتا ہے میری رپنزل بھول گئی ہے کہ عرفان کیا کچھ کر سکتا ہے۔۔۔تمہیں یاد کروانا ہو گا کہ تمہاری اوقات کیا ہے۔۔۔۔"
اتنا کہہ کر عرفان نے اپنی بیلٹ اتار کر اسے اپنے ہاتھ کے گرد لپیٹ لیا تھا۔
"آواز نہ نکلے تمہاری ورنہ جو حد آج تک خادم کے خوف سے پار نہیں کی آج کر جاؤں گا۔۔۔پھر کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نہیں چھوڑوں گا تمہیں۔۔۔"
اتنا کہہ کر عرفان نے بہت زور سے اس بیلٹ کو اسکی کمر پر مارا تھا۔ایمان بے چاری بس تکیے میں منہ دے کر سسک سکتی تھی۔
کتنی ہی دیر اسے مار کر وہ بھیڑیا وہاں سے جا چکا اور وہ معصوم سی لڑکی بس کمر سے اٹھتے درد پر روتی ہی جا رہی تھی۔
"اپنے پاس بلا لیں نا مما۔۔۔پلیز اپنے پاس بلا لیں نہیں رہنا مجھے اس مونسٹر کے پاس۔۔۔۔"
ایمان نے روتے ہوئے کہا اور پھر اپنا گال چھو کر سسکتے ہوئے رو دی تھی۔
"مما اللہ تعالیٰ سے کہیں کہ اپنے پاس بلا لیں مجھے بھی۔۔۔۔ان سے کہیں کہ ماں کے بغیر بیٹی روز مرتی ہے۔۔۔۔"
ایمان اب پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔
"ان سے کہیں یا تو بیٹیوں کی ماؤں کو نہ لے کر جایا کریں۔۔۔۔۔یا ان کے جانے پر بیٹوں کو بھی پاس بلا لیا کریں۔۔۔مجھے بھی پاس بلا لیں مما۔۔۔مجھے بھی پاس بلا لیں۔۔۔۔"
ایمان اپنے کمرے میں روتے ہوئے سسک رہی تھی لیکن اس معصوم کی آہ و پکار سننے والا کوئی نہ تھا کوئی بھی تو نہیں۔
مگر وہ اس بات سے انجان تھی کہ اپنے لیپ ٹاپ پر اسکی آہ و پکار اور یہ منظر دیکھتی دو سبز آنکھیں اب غضب کی شدت سے سرخ ہو چکی تھیں۔

   0
0 Comments